تازہ ترین
کام جاری ہے...
بدھ، 7 جنوری، 2015

قصہ دو خبروں کا۔۔۔


پہلی خبر ملاحظہ فرمائیے، صدر مملکت ممنون حسین کو اسلام آباد ایئرپورٹ کے راول لاؤنج میں موجود تھے کہ انہیں پینے کے لیے جوس پیش کیا گیا جس کے بعد سول ایوی ایشن کے اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر انہیں جوس پینے سے روک دیا۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ جوس زائد المیعاد تھا اور اس سے صدر مملکت کی صحت پر برا اثر پڑ سکتا تھا۔ جوس کے زائد المیعاد ہونے کی تصدیق ڈاکٹرز نے بھی کردی ہے جس کے بعد ڈی جی سول ایوی ایشن نے تحقیقات کے لیے بورڈ تشکیل دے دیا ہے۔

اب دوسری خبر بھی دیکھ لیجئے، تھرپارکر میں غذائی قلت کے باعث ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ستانوے دنوں کے دوران تھرپارکر میں غذائی  قلت کے باعث دو سو چوراسی بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

ان دونوں خبروں میں بیان کیے جانے والے واقعات کی اہمیت میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ ان خبروں کے متن میں، یعنی صدر مملکت کو زائد المعیاد جوس ملنے پر بات کہاں سے کہاں تک پہنچی، یہ سب پوری تفصیل کے ساتھ درج کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ خدانخواستہ اگر صدر مملکت اس جوس کو نوش جاں فرما لیتے تو ان کی طبعِ نازک پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے تھے۔ دوسری جانب، تھرپارکر میں بھوک اور پیاس کی شدت سے سسک سسک کر جان سے ہاتھ دھوتے معصوم بچے بس اسی قابل ہیں کہ دو جملوں میں محض ان کی موت کی وجہ اور اموات کی تعداد بتا دی جائے۔

میں ایک بڑے شہر کا باسی ہوں جہاں پائے جانے والے ہوٹلوں، ریستورانوں، چائے خانوں اور دیگر مقاماتِ خورد و نوش کی تعداد تھرپارکر میں قحط کے باعث جان کی بازی ہارنے والے بچوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ میں معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں جو ہر مہینے میں دو چار بار تفریحِ طبع کے لیے ان مقاماتِ خورد و نوش کا رخ ضرور کرتا ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میرے شہر کے ہوٹلوں، ریستورانوں اور چائے خانوں وغیرہ میں ہر مہینے جتنا کھانے پینے کا سامان ضائع ہوتا ہے اس کا محض پچاس فیصد ہی اگر تھرپارکر بھیج دیا جائے تو غذائی قلت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے لیکن یہ اقدام اس لیے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر ہم نے اپنا وقت، توانائی اور وسائل اس مسئلے کے حل پر لگادیئے تو ہمارا دھیان صدر مملکت اور دیگر انتہائی اہم شخصیات کو کھانے پینے کے لیے دی جانے والی اشیاء سے ہٹ جائے گا اور یوں عین ممکن ہے کہ کسی زائد المیعاد چیز کے کھانے یا پینے سے ان شخصیات میں سے کسی کی طبیعت مکدر ہوجائے۔ باقی رہے تھرپارکر والے بچے تو ان کی اموات پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ انسان مرنے کے لیے ہی تو پیدا ہوتا ہے۔

2 تبصرے:

  1. بہت شکریہ ان واقعات پر روشنی ڈالنے کا ۔ آپ کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ ماشاء اللہ اُس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو اشرافیہ یا انگریزی میں سول سوسائٹی کہلاتا ہے ۔ میرے جیسے تو اِن کھابوں (اِیٹریز) میں اُسی دن جاتے ہیں جب کوئی صاحبِ حیثیت شادی میں بلا لیتا ہے ۔
    اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے تھرپارکر کے باسیوں کی بھوک مٹانے کیلئے اب تک کیا کاروائی کی ہے ؟ اور کچھ نہی تو جس اناج کا کھابوں میں ضائع ہونے کا آپ نے ذکر کیا ہے اپنے دوستوں کو ساتھ ملا کر وہ ضائع ہونے سے قبل اکٹھا کرکے تھرپارکر پہنچا دیتے ۔
    آپ کی اطلاع کیلئے عرض کر دوں کہ تھرپارکر میں کچھ غیرسرکاری رضاکار ادارے کام کر رہے ہیں البتہ سندھ کی حکومت جس کے اہلکاروں کی ذخیرہ اندوزی کے سبب یہ نتیجہ نکلا ہے کچھ نہیں کر رہی ۔اس میں پی پی پی اوقر ایم کیو ایم دونوں ہی ملوث ہیں
    گستاخی پر ایک بار پھر معذرت کہ میں عمل پر زور دیتا ہوں باتوں پر نہیں اور دوسرے کو وہ کرنے کا نہیں کہتا جو میں خود نہ کر چکا ہوں

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. سر، میرا تعلق اشرافیہ سے ہرگز نہیں ہے بلکہ میں متوسط طبقے کا ایک فرد ہوں، البتہ الحمدللہ اتنی استعداد رکھتا ہوں کہ اس طرح کی تفریح سے لطف اٹھا سکوں.
      جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، الحمدللہ میں تھرپارکر کے قحط سمیت ہر قدرتی آفت میں عملی طور پر جس حد تک حصہ لے سکوں، اس سے پیچھے نہیں رہتا.

      حذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں