تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعرات، 7 مئی، 2015

فیصلہ آپ کا!


میں ایک مشہور و معروف شخصیت ہوں۔ لوگ میری ایک جھلک دیکھنے کو گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔ حسین سے حسین لڑکیاں بھی مجھ سے ایک بار بات کرنے کے لیے ترستی ہیں۔ میں اگر کبھی کسی سڑک یا شاپنگ مال میں نظر آجاؤں تو لوگ سب کام چھوڑ کر مجھے دیکھنے لگتے ہیں۔ مجھ سے آٹوگراف لینے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ میں اپنے ان تمام پرستاروں پر دھیان دینے کی کوشش تو کرتا ہوں لیکن ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ میرے لیے ہر کسی کو وقت دینا یا اس کی بات سننا ممکن ہی نہیں ہے۔

میرے کام کے حوالے سے بھی سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں سے میرا رابطہ رہتا ہے اور میں دن رات شدید مصروفیت میں گزارتا ہوں۔ اس حوالے سے مجھے مختلف دعوتوں میں بھی جانا پڑتا ہے تاکہ لوگوں سے میرے تعلقات مزید استوار ہوں اور میرے کام کے سلسلے میں مجھے مزید ترقی ملے۔ انہی اچھے تعلقات کی بدولت میری شہرت میں شب و روز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس اضافے کے ساتھ ساتھ میرے بینک کے کھاتوں کے ہندسے بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ ہر شخص کی طرح میں بھی چونکہ ایک اچھی زندگی گزارنا چاہتا ہوں، لہٰذا مجھے اس سب سے بےحد محبت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں کوئی خود غرض آدمی ہوں، میں ملک بھر میں اپنی فیاضی اور سخاوت کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہوں۔

ایک رات کچھ دوست مجھے اپنے ہاں دعوت پر بلا لیتے ہیں۔ میں ہوں تو مسلمان اور میرے مذہب نے مجھ پر بہت سی پابندیاں بھی عائد کررکھی ہیں لیکن کیا کروں اگر میں پوری طرح ان پابندیوں کا احترام کرنے لگ جاؤں تو پھر میں اپنے تعلقات سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا، اور اگر یہ تعلقات نہ رہے تو میری عزت، شہرت اور دولت بھی آہستہ آہستہ رخصت ہوجائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ان تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے ان پابندیوں کو بالائے طاق رکھنا پڑتا ہے۔ خیر، میں بتارہا تھا کہ میرے کچھ دوستوں نے مجھے ایک رات دعوت پر بلایا۔ ایسی دعوتوں میں اکثر کھانے کے ساتھ شراب و شباب سے بھی دل بہلایا جاتا ہے۔

میں پہلے ہی بتاچکا ہوں کہ میں مسلمان ہونے کے باوجود اپنے کام کی وجہ سے اسلام کی مجھ پر عائد کردہ پابندیوں کا احترام نہیں کرتا، لہٰذا اس محفل میں میں نے بھی جی بھر کر شراب پی۔ میں شدید نشے کی حالت میں تھا اور مجھے گھر بھی پہنچنا تھا۔ میرے ساتھ ڈرائیور نہیں تھا۔ ایک محافظ ضرور تھا لیکن اسے گاڑی چلانی نہیں آتی تھی۔ میں نے نشے کی حالت میں خود ہی گاڑی چلانے کا فیصلہ کیا۔ میں جب گاڑی لے کر نکلا تو اس وقت آپ، جی ہاں آپ، اپنی بےسروسامانی کے سبب اپنے کچھ عزیزوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر سورہے تھے۔ میری گاڑی کی رفتار بہت تیز تھی، میرے محافظ نے مجھے رفتار کم کرنے کو کہا لیکن میں شدید نشے کی حالت میں تھا، سو مجھے اس کی بات سمجھ نہیں آئی۔ مجھے نہیں پتہ کہ میری گاڑی کس وقت بےقابو ہو کر فٹ پر سوئے ہوئے آپ لوگوں پر جا چڑھی۔ اس حادثے کی وجہ سے آپ کے ایک عزیز کا موت واقع ہوگئی اور باقی لوگ بری طرح زخمی ہوئے۔ آپ لوگ چیختے چلاتے رہے مگر میں گاڑی لے کر فرار ہوگیا۔

اطلاع ملنے پر پولیس نے مجھے گرفتار کرلیا۔ میں کہتا ہوں کہ میں نے کچھ نہیں کیا، میں نے شراب نہیں پی ہوئی تھی اور نہ ہی میں گاڑی چلارہا تھا۔ میرا محافظ اور کچھ عینی شاہدین میرے خلاف گواہی دیتے ہیں۔یہ مقدمہ تقریباً تیرہ برس تک عدالت میں زیرِ سماعت رہتا ہے۔ تیرہ سال بعد میرا ڈرائیور عدالت کے سامنے آ کر کہہ دیتا ہے کہ گاڑی میں نہیں بلکہ وہ چلارہا تھا۔ عدالت گواہوں کے بیانات کی روشنی میں میرے ڈرائیور کے بیان کو مسترد کردیتی ہے۔ اب عدالت ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر جائزہ لے رہی ہے کہ حالات و واقعات اور گواہوں کے بیانات کی روشنی میں مجھے مجرم قرار دیا جائے یا میرے بیان کو درست تسلیم کرتے ہوئے مجھے بےقصور مان لیا جائے۔

یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ میں جس صنعت سے وابستہ ہوں اس کے کروڑوں اربوں روپے میرے اوپر چلنے والے اس مقدمے کی وجہ سے داؤ پر لگے ہیں۔ اب عدالت کسی فیصلے پر پہنچنا چاہ رہی ہے۔ عدالت کا فیصلہ تو جو ہونا ہے وہ ہوگا، لیکن میں چاہتا ہوں کہ ایک لمحے کو اس پوری صورتحال کا تصور کرتے ہوئے آپ بتائیے کہ مجھے مجرم قرار دے کر سزا دی جائے یا بےگناہ تسلیم کرتے ہوئے چھوڑ دیا جائے؟؟؟

3 تبصرے:

  1. Jee

    Salam alekum

    Aap ne bhi Qoob likha hai, Na Idhar na Udhar.!

    Moo kholne ki Der hai, Alfaz ki Bhar maar hai. Mamle ki Nazakat chahti hai.,

    Watch and See !

    Bushra khan
    Allahabad

    جواب دیںحذف کریں
  2. میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ مجرم کو اُس کے جرم کی سزا نہ دینا پوری قوم کے خلاف جرم کا ارتکاب ہے

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں