تازہ ترین
کام جاری ہے...
اتوار، 20 مارچ، 2016

ڈاکٹر انور سدید انتقال کرگئے


مختلف تحقیقی و تخلیقی جہتوں کے حامل ڈاکٹر انور سدید 88 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ ان کی نمازِ جنازہ آج بعد از عصر سرگودھا کے بڑے قبرستان میں ادا کی جائے گی۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

انور سدید 4 دسمبر 1928ء کو سرگودھا کی تحصیل بھلوال کے نواحی قصبے میانی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک نومسلم راجپوت خاندان سے تھا۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان میں حاصل کی۔ 1944ء میں ایف ایس سی کے لیے اسلامیہ کالج لاہورمیں داخلہ لیا لیکن تحریک پاکستان میں سرگرمیوں کی وجہ سے امتحان نہیں دے سکے۔ 1946ء کے انتخابات میں انھوں نے مسلم لیگ کے لیے خدمات انجام دیں۔ بعدازاں، ان کے بڑے بھائیوں نے میٹرک کی بنیاد پر انھیں محکمہ آبپاشی میں کلرک بھرتی کروادیا۔ 1947ء میں انھوں نے گورنمنٹ انجینئرنگ اسکول، رسول سے سول انجینئرنگ کے ڈپلومے میں داخلہ لیا اور امتحان میں اول بدرجہ اول کامیابی حاصل کرنے کے بعد آبپاشی کے محکمے میں ہی اوورسیئر کے طور پر ملازم ہوگئے۔ ملازمت کے دوران میں انھوں نے ادیب فاضل کا امتحان اول بدرجہ اول پاس کیا اور آزادی کے بعد اس امتحان میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ بعدازاں، انھوں نے ایف اے، بی اے (صرف انگریزی) اور ایم اے (اردو) کی اسناد بطور پرائیویٹ امیدوار حاصل کیں۔ ایم اے میں سب سے زیادہ نمبر لینے پر انھیں طلائی تمغہ اور بابائے اردو مولوی عبدالحق گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی ترغیب پر انھوں نے ”اردو ادب کی تحریکیں“ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران میں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرز ڈھاکہ سے ایسوسی ایٹ ممبر آف دی انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرز (اے ایم آئی ای) کا امتحان پاس کیا جو ان کے نوکری میں ترقی کا وسیلہ بنا۔ یوں وہ پہلے سب ڈویژنل آفیسر (ایس ڈی او) بنے اور پھر 1977ء میں ایگزیکٹو انجینئر کے عہدے پر ترقی پائی۔ دسمبر 1988ء میں اسی عہدے سے ریٹائر ہوئے۔
سدید صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد عملی صحافت میں قدم رکھا۔ 1990ء سے 1995ء تک وہ ’قومی ڈائجسٹ‘ کے مدیر رہے۔ پھر روزنامہ ’خبریں‘ سے ڈپٹی ایڈیٹر کی حیثیت میں وابستہ ہوگئے اور 1998ء تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ بعدازاں،’نوائے وقت‘ سے وابستہ ہوگئے اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا۔ سرگودھا میں قیام کے دوران میں وہ کالم نگار کی حیثیت سے ’جسارت‘، ’حریت‘ اور ’مشرق‘ سے منسلک رہے اور ماہنامہ ’اردو زبان‘ کے پسِ پردہ مدیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔


1966ء میں سدید صاحب نے اپنے تخلیقی اور تنقیدی سفر کا آغاز کیا۔ بچوں کے رسالے ’گلدستہ‘ اور فلمی پرچے ’چترا‘ میں لکھنے سے شروعات کی۔ اسی دور میں ڈاکٹر وزیر آغا نے ’اوراق‘ نکالا تو اس کے لیے لکھنے لگے۔ بعدازاں، انھوں نے افسانہ، انشائیہ، سفرنامہ، جائزہ، تحریف، خاکہ، دیباچہ، تبصرہ، ترجمہ، کالم اور شعر کی مختلف اصناف سمیت بہت سی صورتوں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ’اردو ادب کی تحریکیں‘، ’اردو ادب کی مختصر تاریخ‘ اور ’پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‘ جیسی تصنیفات سے تحقیق اور تاریخ نگاری کے میدان بھی انھوں نے اپنا لوہا منوایا۔ ان کی دیگر اہم تصانیف میں ’میر انیس کی قلمرو‘، ’غالب کا جہاں اور‘، ’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘، ’شاعری کا دیار‘، ’اردو نثر کے آفاق‘، ’اردو ادب میں سفرنامہ‘، ’انشائیہ اردو ادب میں‘، ’اردو افسانہ - عہد بہ عہد‘، ’مولانا صلاح الدین احمد - شخصیت اور فن‘، ’ڈاکٹر وزیر آغا - ایک مطالعہ‘ اور ’شام کا سورج‘ شامل ہیں۔
ان کی شادی 9 مئی 1956ء کو ان کے چچیرے بھائی میاں بشیر احمد کی بیٹی نصرت بیگم سے ہوئی۔ ان کے چار بیٹے ہیں جو روزگار کے سلسلے میں مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں۔

2 تبصرے:

  1. جنابِ محترم

    عاطف بٹ صاحب

    سلامِ مسنون


    اللہ مرحوم کو جنت اور پثماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے. آمین یا رب العالمین

    کافی عرصہ بعد آپ نمودار ہوئے ہیں. آپ کی خوشگوار و پراثر تحاریر نہ ہونے سے اردو فیڈز کی رونق کچھ مدِّہم سی ہوگئی ہے.

    مرحومیں کا ذکر خیر بھی آپ ہی کا حصہ ہے.


    نازنین خان

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. وعلیکم السلام
      بےحد شکریہ کہ آپ مجھے اس قابل سمجھتی ہیں۔ میں اپنی کچھ تحقیقی اور پیشہ ورانہ مصروفیات کی وجہ سے غائب رہا لیکن اب انشاءاللہ باقاعدگی سے بلاگ پر توجہ دینے کا ارادہ ہے۔

      حذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں