تازہ ترین
کام جاری ہے...
ہفتہ، 28 فروری، 2015

حقوقِ نسواں کا دوہرا معیار


مغرب اپنی اسلام مخالف جنگ کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کررہا ہے۔ انہی حربوں میں سے ایک اہم حربہ آزادیِ نسواں ہے جس کا نام لے کر دنیا بھر کے مسلمان ممالک میں بےحیائی پھیلانے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ایسے افراد اور اداروں کو ہر ممکن مدد فراہم کی جاتی ہے جو مسلمان لڑکیوں اور عورتوں کو آزادیِ نسواں کے اس دامِ ہم رنگِ زمیں میں پھانسنے کے لیے کوشاں ہیں۔

اس حوالے سے چند روز پہلے ایران سے تعلق رکھنے والی ایک اڑتیس سالہ خاتون مسیح علی نژاد کو سوئٹرزلینڈ کے شہر جنیوا میں "انسانی حقوق کا ایوارڈ" بھی دیا گیا ہے۔ مسیح علی نژاد، جن کا اصل نام معصومہ علی نژاد قمی ہے، کو جس خدمت کے عوض یہ ایوارڈ دیا گیا وہ یہ ہے کہ موصوفہ نے فیس بک پر ایک صفحہ بنا رکھا ہے جہاں وہ ایران سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں اور عورتوں کو حجاب کے بغیر اپنی تصویریں پیش کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مسیح خود ایران میں نہیں بلکہ انگلستان میں رہتی ہیں جہاں ایرانی خواتین کو بےحجاب کرنے کے لیے انہیں مغربی میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

مسیح کو ایوارڈ دینے والے ادارے، جنیوا سمٹ فار ہیومن رائٹس اینڈ ڈیموکریسی کا کہنا ہے کہ یہ ایوارڈ "بےآوازوں کو آواز مہیا کرنے اور ایرانی خواتین کی بنیادی انسانی حقوق، آزادی اور مساوات کے لیے جدوجہد کی حمایت کے لیے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے" کے عوض دیا گیا۔ بیس غیرسرکاری تنظیموں کے اتحاد سے وجود میں آنے والے اس ادارے کے دل میں انسانیت اور بالخصوص مسلمان عورتوں کے لیے ہمدردی کا سمندر ایسے زور شور سے ٹھاٹھیں مار رہا ہے کہ اس کی لہریں جنیوا سے تقریباً پانچ ہزار کلومیٹر دور تہران تک پہنچ رہی ہیں۔

کاش یہ لہریں ذرا سی اور طاقتور ہوتیں تاکہ یہ مزید آٹھ نو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتیں۔ یہ اضافی فاصلہ طے کرنے کی سکت اگر ان لہروں میں ہوتی تو میری شدید خواہش ہے کہ انہیں دوسری جانب رخ کر کے کینیڈا کے شہر مونٹریال میں پہنچنا چاہیے تھا جہاں ایک عدالت میں کرسیِ انصاف پر براجمان جج صاحبہ نے ایک مسلم خاتون کا مقدمہ اس وقت تک سننے سے انکار کردیا جب تک اس خاتون نے اپنا حجاب نہیں اتارا۔ اس خاتون پر اس وقت کیا گزری یہ آپ اس کے انٹرویو میں سن یا پڑھ سکتے ہیں جو انٹرنیٹ پر موجود ہے۔

بنیادی انسانی حقوق، آزادی اور مساوات، یہ سب وہ کھوکھلے نعرے ہیں جنہیں مغرب نے دنیا کو غچا دینے کے لیے گھڑ رکھا ہے۔ آپ چاہیں تو مجھ سے اختلافِ رائے رکھیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسلام دشمنی کے معاملے میں مغرب نہ تو انسانی حقوق کی پروا کرتا ہے، نہ کسی آزادی کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ مساوات کا کوئی خیال کرتا ہے۔

ایک تبصرہ:

  1. محترم ۔ ہمارے لوگوں کے اس دام میں پھنسنے کا سبب ہمارے مُلک کے ذرائع ابلاغ ہیں جو دین بیزار اور ہماری تہذیب کے باغی ہیں

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں