تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعہ، 17 اپریل، 2015

عطاء، تم تو مجھ سے بھی چھوٹے تھے یار!


کراچی میں ایک نوجوان مذہبی عالم عطاء سراجی تھا۔ اس جملے میں "تھا" لکھتے ہوئے مجھے انتہائی تکلیف محسوس ہورہی ہے۔ خواہش کے باوجود میری عطاء سراجی سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے درمیان تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ حائل تھا۔ البتہ اس کی عربی سے اردو اور اردو سے عربی میں ترجمہ شدہ کچھ چیزیں پڑھنے کا کئی بار موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ وہ دونوں زبانوں پر خوب قدرت رکھتا ہے۔ میں فیس بک پر اس کے کیفیت نامے پڑھ کو اکثر سوچتا تھا کہ آئندہ جب کراچی گیا تو اس بندے سے ملاقات کروں گا تاکہ میں اس سے کچھ سیکھ سکوں۔

عطاء کے کیفیت نامے عموماً مسلم دنیا کے حالات کے حوالے سے ہوتے تھے۔ فلسطین اور مصر کے مسئلے پر وہ بہت سرگرم تھا۔ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والوں کو چن چن کر سزائیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس مسئلے پر بھی وہ بہت فعال دکھائی دیا۔ کبھی اردو میں چیزیں لکھتا، کبھی عربی میں، اور کبھی خود لکھ کر ترجمہ کردیتا یا پھر کہیں اور لکھی ہوئی چیزیں لے کر ان کا ترجمہ کرتا۔ تحریروں سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس بندے کے دل میں قوم کے لیے سچا درد اور خالص احساس پایا جاتا ہے۔

مخلص اور باصلاحیت نوجوان تو کسی بھی قوم کے لیے انمول خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عطاء ایک ایسا ہی نوجوان تھا کہ اسے قوم کے لیے انمول خزانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ صد افسوس کہ اس شاندار نوجوان سے میری ملاقات ایک خواب ہی بن کر رہ گئی۔ کچھ دیر پہلے ایک دوست کی وساطت سے پتہ چلا کہ عطاء دو روز پہلے ایک ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہوا تھا اور آج اس کا انتقال ہوگیا ہے۔

عطاء کے انتقال کی خبر پڑھ کر مجھے یقین ہی نہیں آیا کیونکہ دو تین روز پہلے تک تو وہ بنگلہ دیش میں قمرالزمان کی پھانسی کے خلاف کیفیت نامے لکھ رہا تھا اور اس کا ایک کیفیت نامہ جو مجھے بہت اچھا لگا وہ یہ تھا، "یہ قانون فطرت ہے کہ اس دنیا میں جو پیدا ہوتا ہے وہ ایک دن ضرور مرتا ہے۔ اگر دنیا کی زندگی کا انجام موت ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم ایک لمحہ کیلئے زندہ رہیں یا ایک صدی تک زندہ رہیں۔ مرنے والی کی قبر سے دنیا صرف یہ پوچھتی ہے کہ تم زندہ رہے تو کس شان سے زندہ رہے اور مرے تو کس آن سے مرے۔۔۔"

عطاء کی باتوں سے جھلکتا خلوص دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ زندگی شان سے گزار رہا ہے۔ میں تو اس شاندار نوجوان سے ملنے کا منصوبہ بنارہا تھا لیکن اس نے فاصلے کو ایک ہزار کلومیٹر سے بڑھا کر اتنا طویل کردیا کہ اب تو وصالِ یار فقط آرزو کی بات دکھائی نہیں دیتا۔ جانا تو سب نے ہی ہوتا ہے لیکن عطاء، تم تو مجھ سے بھی چھوٹے تھے یار!

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں