تازہ ترین
کام جاری ہے...
ہفتہ، 7 مارچ، 2015

علم بمقابلہ اطلاعات و معلومات


’ادب لطیف‘ کے جون کے شمارے میں کشور ناہید کے شعری مجموعے ’ملامتوں کے درمیان‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے خالدہ حسین نے یہ لکھا ہے: ”جب علم انسانی تجربے میں ڈھلنے کی بجائے الفاظ کے انبار کی صورت میں انسان پر حملہ آور ہوتا ہے تو زندگی میں الفاظ کی بہتات اور علم کی کمی ہوجاتی ہے۔“

میں نے یہ جملہ پڑھا تو الفاظ کی بہتات کے سلسلے میں مجھے پروفیسر مجیب کی ایک تحریر یاد آگئی۔ انہوں نے اپنی کتاب ’انڈین مسلمز‘ میں کسی جگہ یہ لکھا ہے کہ جس زمانے میں مسلمانوں کے پاس دولت و امارت تھی تو مسلمان رؤسا اور امرا آپس میں فضول خرچی کا مقابلہ کرتے تھے۔ اگر ایک رئیس نے پانچ سو آدمیوں کی دعوت کی تو دوسرا ایک ہزار آدمیوں کی ضیافت کرتا تھا، خواہ اسے مہاجن سے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ اور جب بالآخر یہ دولت و امارت ختم ہوگئی تو یہ فضول خرچی لفظوں میں آگئی۔ اگر مقصد انا کی تسکین ہو تو دولت اور لفظ دونوں کی فضول خرچی ہوتی ہے اور خالدہ حسین کی لفظوں کے انبار والی بات اس جھوٹی تسکین کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تاہم وہ اس کا سبب یہ بتاتی ہیں کہ علم تجربے میں نہیں ڈھلتا، مگر کیا وہ علم جو تجربے میں نہیں ڈھلتا علم کہلانے کا مستحق ہے؟ ہماری ناقص رائے میں وہ محض اطلاعات و معلومات کی حیثیت رکھتا ہے۔ لفظوں کا انبار انہیں اطلاعات و معلومات سے بنتا ہے جو علم کی سطح پر لائے بغیر یعنی تجربہ بجائے بغیر تقریر و تحریر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ کسی قسم کا تجربہ ہو، اس میں پوری ذات کی شمولیت ضروری ہوتی ہے۔ یہ عمل نفیِ انا کے بغیر ممکن نہیں۔ اس میں اپنا خول توڑنا پڑتا ہے کہ بغیر ریاضت و انکساری کے تجربہ نہیں ہوسکتا۔ یہی تجربہ علم ہوتا ہے۔ اس علم کے باعث لفظ خود تجربہ بن جاتا ہے۔ اسے آپ چاہیں تو ’زندہ لفظ‘ کہہ لیں۔

اس طرح اطلاعات و معلومات کو تجربہ سے گزار کر علم بنایا جاسکتا ہے۔ علم، عشق اور عبادت تجربے سے عاری ہوں تو جہالت، ہوس اور منافقت بن جاتے ہیں۔ بے ضمیر انسانوں اور بے روح معاشرے کی پرکھ اسی کسوٹی سے ہوتی ہے۔

(سجاد باقر رضوی کے مضمون ’زندہ لفظ‘ سے اقتباس)

ایک تبصرہ:

  1. محترم ۔ خالدہ حسین صاحبہ نے درست لکھا ہے اور آپ کا استدلال بھی درست ہے ۔ بہرکیف اچھا ہو یا بُرا رہتا عِلم ہی ہے ۔ انسان کو وہ عِلم حاصل کرنا چاہیئے جو انسان یا انسانیت کے اچھے کام کرے ۔
    اپنے چاروں طرف نظر دوڑایئے ۔ بڑے خوبصورت الفاظ سے معمور تقاریر کرنے اور مضامین لکھنے والے نظر آئیں گے ۔ ان میں سے گن کر دیکھیئے کہ کتنے اپنے ہی الفاط پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے کہا تھا
    زباں سے کہہ بھی دیا لا اِلہ تو کیا حاصل
    دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں