تازہ ترین
کام جاری ہے...
جمعہ، 27 مارچ، 2015

سبب کچھ اور ہے۔۔۔ (1)


بالآخر سعودی عرب نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ 'فیصلہ کن طوفان' نامی اس کارروائی کے لیے سعودی عرب نے اپنے ڈیڑھ لاکھ فوجی اور ایک سو جنگی طیارے مختص کیے ہیں۔ بحرین اور کویت نے بھی اس سلسلے میں پندرہ، پندرہ جنگی طیارے بھیجے ہیں جبکہ قطر نے دس، اردن نے چھے اور سوڈان نے تین جنگی طیارے اس کام میں لگانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ عبدالفتاح السیسی بھی اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے بحریہ اور فضائیہ کے دستے بھیجے گا جبکہ 'ضرورت کے مطابق' برّی فوج بھی بھیجی جائے گی۔

اس حوالے سے ایک اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان نے بھی سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کو لاحق کسی بھی خطرے کے جواب میں اس کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں آج وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیراعظم کے مشیر برائے خاجہ امور سرتاج عزیز سمیت سینئر فوجی نمائندوں پر مشتمل وفد سعودی عرب جا کر صورتحال کا جائزہ لےگا جس کے بعد ممکنہ عملی اقدامات کے لیے معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ حکومت پاکستان کے اس اہم فیصلے کے باوجود ملک میں مشرق وسطیٰ کی اس اہم ترین جنگ میں شمولیت کے حوالے سے پوری طرح رائے عامہ ہموار نہیں ہے۔

بین الاقوامی سطح پر حوثی باغیوں کو ایران کا حمایت یافتہ قرار دیا جارہا ہے، تاہم ایران اس بات سے انکاری ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ حوثی قبائل کو کسی قسم کی کوئی امداد فراہم نہیں کررہا۔ عالمی سطح پر ایران اور حوثی باغیوں کے مابین تعلق کے حوالے سے پائے جانے والے تاثر کو دونوں کے شیعہ مکتبۂ فکر سے متعلق ہونے کے علاوہ اس بات سے بھی تقویت ملی ہے کہ گزشتہ ماہ یمن کے سب سے بڑے شہر صنعا پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد حوثیوں نے اسے اپنا دارالحکومت قرار دے کر وہاں سے یمن اور ایران کے درمیان ہر ہفتے 28 پروازیں چلانے کا اعلان کیا۔ قبل ازیں، یمن سے کوئی بھی پرواز ایران نہیں جاتی تھی۔

یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی جو اپنے ملک سے فرار ہونے کے بعد کل سعودی دارالحکومت ریاض میں پہنچے تھے، 22 جنوری کو صدارتی محل پر قبضے کے بعد قید کرلیے گئے تھے اور حوثی باغیوں نے زبردستی ان سے استعفیٰ بھی لے لیا تھا۔ اِدھر وہ ریاض پہنچے اور اُدھر سعودی عرب نے جنگی طیاروں کی مدد سے حوثی باغیوں پر فضائی حملوں کے ساتھ کارروائی کا آغاز کردیا۔ ایران اس کارروائی سے ناخوش ہے اور اس نے سعودی عرب کے اس اقدام کی مذمت بھی کی ہے۔

یہاں تک کی کہانی تو حقائق پر مبنی ہے اور ان میں سے بیشتر باتیں آپ کو پہلے سے معلوم ہوں گی۔ تصویر کا یہ رخ اہم تو ہے لیکن اس کی مدد سے ہمیں پوری صورتحال سے آگاہی نہیں مل پاتی۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ یمن کے اندر پھوٹنے والے فسادات بین الاقوامی سطح پر ایک  بڑا شیعہ سنی تنازعہ بنتے نظر آرہے ہیں۔ اس معاملے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے خلیجی مجلسِ تعاون یعنی جی سی سی کی بالعموم گزشتہ چند برسوں اور بالخصوص پچھلے کچھ مہینوں کی پیشرفتوں اور کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ (جاری ہے)

پس نوشت: یہ بات شاید بلاگنگ کے اصولوں کے خلاف ہو لیکن میں اس تحریر کو مختلف حصوں میں بانٹ کر لکھنا چاہتا ہوں تاکہ مضمون کی طوالت اور حقائق و معلومات کی بھرمار کے باعث قارئین بیزار نہ ہوجائیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ اس تحریر کے تمام حصے حالیہ تناظر تک ہی محدود رہیں گے کیونکہ تاریخ پر کی جانے والی بحث غیر ضروری طور پر طول کھینچے گی جس کے لیے یہ محل ہرگز مناسب نہیں ہے۔

ایک تبصرہ:

  1. آپ نے اچھا کیا کہ تحریر کو تقسیم کردیا ورنہ شاید طوالت دیکھ کر میں بھی پڑھے بغیر چلا جاتا۔ اگر ممکن ہو تو روزانہ کی بنیاد پر اس کی ایک قسط جاری کر کے جلد مکمل کرلیں۔

    جواب دیںحذف کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں‌/بند کریں